جی چاہتا ہے
انہیں بھی بلانے کو جی چاہتا ہے
نہر میں نہانے کو جی چاہتا ہے
نہ پوری نہ حلوہ نہ لڈو نہ برفی
مرا کھیر کھانے کو جی چاہتا ہے
جہاں دودھ کی دیکھتا ہوں کڑاہی
وہیں بیٹھ جانے کو جی چاہتا ہے
وہ جن میں ہے کچھ کھانے پینے کا قصہ
وہ باتیں بنانے کو جی چاہتا ہے
میں بزدل ہوں موجوں سے گھبرا رہا ہوں
کنارے پہ آنے کو جی چاہتا ہے
جو استاد کہتا ہے پڑھنے کو ہم سے
بہانہ بنانے کو جی چاہتا ہے
جہاں ہو نہ پانی نہ تالاب کوئی
وہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
فلک سے یہ رنگین تاروں کی گیندیں
مرا توڑ لانے کو جی چاہتا ہے
غزل کوئی سبطینؔ سنتا نہیں ہے
اور اپنا سنانے کو جی چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.