جسم کے اندر جسم کے باہر
میں نے زمیں کی تپتی رگوں پہ ہاتھ دھرے ہیں
میں نے زمیں کی تپتی رگوں سے
تپتے لہو کو ابلتے دیکھا ہے
ان رستوں پہ ان گلیوں پہ
پتھر جیسی سخت ہوا کے
سرخ دھماکے دیکھے ہیں
رات کی متورم گھڑیوں میں
زرد مکانوں کے صحنوں میں
لہو کو گرتے دیکھا ہے
قطرہ قطرہ قطرہ
قطرہ قطرہ بنتے بنتے ایک سمندر
اک بے پایاں تپتا سرخ سمندر
زرد مکانوں کی رگ رگ میں
تپتا سرخ سمندر
ان گلیوں کی بوڑھی چھال پہ عفریتوں کے حملے
تپتی زمیں کے ساتویں تلوے تک لہراتی اندھی چیخیں
کتنی ہی ظالم صدیوں سے
اندھی چیخیں میرے تپتے جسم کے جلتے خلیوں
زرد مساموں کے دروں میں بھٹک رہی ہیں
چیخیں میرے جسم کی اک اک رگ میں یورش کرتی ہیں
نفرت کا تیکھا لشکارہ جسم کو کاٹتا رہتا ہے
جس کے اندر جسم کے باہر
خون کا اندھا لاوا بہتا رہتا ہے
- کتاب : Prindey,phool taalab (Pg. 132)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.