جسم کی آگ
مرے جسم میں آگ ایسی لگی ہے
جسے سیکڑوں کیا
ہزاروں سمندر بجھانے کو آئیں
تو بجھنے نہ پائے
مری روح کی رہ گزاروں پہ شعلے
لپکتی زبانوں کے کشکول لے کر
مرے جسم سے
خوں کا اک قطرۂ آرزو مانگتے ہیں
مگر جسم میرا تو خود ایک دریوزہ گر ہے
جو لمحہ بہ لمحہ
خود اپنی لگائی ہوئی آگ میں
جل رہا ہے
خیالوں کے سائے بھی
اک آتش غیر محسوس میں جل رہے ہیں
کوئی ہے
جو مجھ کو نجات اس تپش سے دلائے
کوئی ہے
جو میرے لئے ایک ایسا سمندر بتائے
جو کوئی بھی جاں دار و بے جان مخلوق کے لمس سے
آشنا تک نہیں ہو
جو خود اپنے درپن میں
شکل اپنی ہی دیکھ کر
جی رہا ہو
اگر تم کو ایسا سمندر ملے تو بتاؤ
کہ یہ آتش غیر محسوس
ایسے سمندر سے ہی بجھ سکے گی
کہاں ہے سمندر
کہاں ہے سمندر
کہ میں آتش لمس کی لذت غیر محدود سے
اب پگھلنے لگا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.