جو لوگ راتوں کو جاگتے تھے
ستارے جتنے بھی آسماں پر
مری تمنا کے ضوفشاں تھے
زمیں کے اندر اتر گئے ہیں
جو لوگ راتوں کو جاگتے تھے وہ مر گئے ہیں
وہ پھول وہ تتلیاں کہ جن سے
بہار کی دل کشی سوا تھی
وہ رزق خاشاک بن چکے تھے
تمام منظر تمام چہرے جو دھیرے دھیرے سلگ رہے تھے
سو اب وہ سب راکھ بن چکے ہیں
میں رفتگاں کی اداس یادوں کے سائے میں دن گزارتا ہوں
اگرچہ خوابوں کا پیرہن تار تار سا ہے
پہ میں اسے کب اتارتا ہوں
مری صدا کا جواب اب کوئی بھی نہ دے گا
یہ جانتا ہوں مگر مسلسل کسی کو اب تک پکارتا ہوں
عجیب یہ کھیل ہے کہ جس کو نہ جیتتا ہوں نہ ہارتا ہوں
مری کہانی میں کوئی شے بھی نئی نہیں ہے
یہ ننھے منے حسین خوابوں سے ہے عبارت
مری کہانی میں نرم دن خوش گوار شاموں
اداس راتوں کی ایک رو ہے
وجود میرا کسی دیئے کی حقیر لو ہے
میں یوں تو کہنے کو عقل و منطق کے دور کا آدمی ہوں لیکن
مرا رویہ ہے زندگی کو گزارنے کا بہت پرانا
میں سوچتا ہوں کہ اک صدی قبل پیدا ہوتا تو ٹھیک رہتا
کہ مجھ سے کوئی بھی کچھ نہ کہتا
جو خاک کا رزق ہو چکے ہیں
میں ان زمانوں کا نوحہ گر ہوں
وصال و ہجراں کی داستانوں کا نوحہ گر ہوں
جنہیں یہ دنیا ہزار ہا بار سن چکی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.