جستجو کا احتجاج
صدائے خوش خرام تھی
ادائے دلبری لیے
مژہ سے تیر پھینکتی ہوئی مری طرف رواں دواں
خدا گواہ جیسے مرمریں بدن لیے عدم سے کوئی رو میں ہو
قطار در قطار صنف ہائے خلق دیکھتی ہوئی
قضا بھی ٹھہر کر نظر بچا کے دیکھنے لگی
یہ کائنات عاشقوں کے واسطے بہت بڑی نہیں
مگر ذرا سے فاصلے کو سر کیا تو کئی ہزار نوری سال لگ گئے
تمہارے ہجر میں کئی برس گزار کے
وجود در وجود اپنا اندروں سنوار کے
کوئی پہاڑ دیکھ کر کے نصف عمر سو لیا
کئی برس ہوئے ہیں مجھ سے شاعری نہیں ہوئی
سروش نے بتایا تھا کہ چشمۂ وحی پہ تم نے بند باندھ رکھے تھے
بھلا سے یہ بھی کوئی بات ہے
چلو وہاں سے آئے ہو تو یہ بتاؤ میرا دائمی خدا کہاں گیا
وہ آتشیں پرت فضا میں اوڑھ کر کے کس کی سمت چل دیا
کلیم نے کہا تھا وہ تو اس کے ساتھ ہے یا وہ کسی کے ساتھ ہے
مگر مجھے تو صرف اس کی سمت جاننی ہے جان من
گلیشئر صدائے الاماں لگا چکے
سروں کے بادشاہ اپنے سر فضا میں کھو چکے
ابھی رکو
شکایتیں سنانے دو
شگوفۂ بدن ذرا سی دیر میں نکھارنا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.