کائنات
میں کتنی صدیوں سے تک رہا ہوں
یہ کائنات اور اس کی وسعت
تمام حیرت تمام حیرت
یہ کیا تماشا یہ کیا سماں ہے
یہ کیا عیاں ہے یہ کیا نہاں ہے
اتھاہ ساغر ہے اک خلا کا
نہ جانے کب سے نہ جانے کب تک
کہاں تلک ہے
ہماری نظروں کی انتہا ہے
جسے سمجھتے ہیں ہم فلک ہے
یہ رات کا چھلنی چھلنی سا کالا آسماں ہے
کہ جس میں جگنو کی شکل میں
بے شمار سورج پگھل رہے ہیں
شہاب ثاقب ہے
یا ہمیشہ کی ٹھنڈی کالی فضاؤں میں
جیسے آگ کے تیر چل رہے ہیں
کروڑ ہا نوری برسوں کے فاصلوں میں پھیلی
یہ کہکشائیں
خلا گھیرے ہیں
یا خلاؤں کی قید میں ہے
یہ کون کس کو لیے چلا ہے
ہر ایک لمحہ
کروڑوں میلوں کی جو مسافت ہے
ان کو آخر کہاں ہے جانا
اگر ہے ان کا کہیں کوئی آخری ٹھکانا
تو وہ کہاں ہے
جہاں کہیں ہے
سوال یہ ہے
وہاں سے آگے کوئی زمیں ہے
کوئی فلک ہے
اگر نہیں ہے
تو یہ نہیں کتنی دور تک ہے
میں کتنی صدیوں سے تک رہا ہوں
یہ کائنات اور اس کی وسعت
تمام حیرت تمام حیرت
ستارے جن کی سفیر کرنیں
کروڑوں برسوں سے راہ میں ہے
زمیں سے ملنے کی چاہ میں ہے
کبھی تو آ کے کریں گی یہ میری آنکھیں روشن
کبھی تو آئے گی میرے ہاتھوں میں روشنی کا ایک ایسا دامن
کہ جس کو تھامے میں جا کے دیکھوں گا ان خلاؤں کے
پھیلے آنگن
کبھی تو مجھ کو یہ کائنات اپنے راز کھل کے
سنا ہی دے گی
یہ اپنا آغاز اپنا انجام
مجھ کو اک دن بتا ہی دے گی
اگر کوئی واعظ اپنے منبر سے
نخوت آمیز لحظے میں یہ کہے
کہ تم تو کبھی سمجھ ہی نہیں سکو گے
کہ اس قدر ہے یہ بات گہری
تو کوئی پوچھے
جو میں نہ سمجھا
تو کون سمجھائے گا
اور جس کو کبھی نہ کوئی سمجھ سکے
ایسی بات تو پھر فضول ٹھہری
- کتاب : Lava (Pg. 33)
- Author : Javed Akhtar
- مطبع : Raj Kamal Parkashan (2012)
- اشاعت : 2012
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.