کائی بھرے گنبد کا نوحہ
کاش نہ ہوتا تو اچھا تھا
ایسا بھی ہوتا ہے جگ میں
رب کے ہم سایے کی ایسے
رب کے پجاری جاں لیتے ہیں
دن بڑا غمگیں سا تھا وہ
سورج بھی رویا تھا پہروں
صدیوں کی وہ رات عجب تھی
جیسے روحیں چیخ رہی ہوں
صبح کی چنچل ہوا جو آئی
جانے کس کو ڈھونڈ رہی تھی
بولائی بولائی سی
پھول پرندے سب گم صم تھے
پیڑوں کے پتے تک ساکت
فصلوں کی بالیں بھی چپ تھیں
سریو کی آنکھوں کے آنسو
جانے کیوں نہ تھمتے تھے
ناری بالک پیر فقیر
گیانی اور اپدیشک بھی
سب حیراں تھے سہمے تھے سب
دبدھا میں تھا ہر کوئی
کیسے کس کو منہ دکھلائے
مرد مقدس لوہ پرش
تیر دھنش جب لے کر لوٹا
ٹوٹ چکا ہو خود وہ جیسے
شرمندہ افسردہ تھا
ظالم کو پراجے کرنے والا
عصمت سیتا کا رکھوالا
اپنا سب کچھ تیاگنے والا
راج دھرم کا رکشک خود ہی
خود اپنی نگری کے اندر
بے بس اور رنجیدہ تھا
کیوں کہ خود اس کے اپنوں نے
اس کی ہی نگری میں آ کر
اس کا ہی دل توڑ دیا تھا
آج بھی جب وہ دن آتا ہے
سورج چندا دن اور رات
پھول پرندے کھیت کی فصلیں
بالک گیانی پیر فقیر
سب گم صم ہو جاتے ہیں
سورج سریو سیتا مل کر
پہروں نیر بہاتے ہیں
کہ راج دھرم کے رکشک کا دل
پھر سے توڑا جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.