Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کالا

MORE BYعمران شمشاد نرمی

    کالا حد سے بھی کالا تھا

    اتنا کالا جتنی تیری سوچ

    اتنا کالا جتنی تیرے دل کی کالک

    کون تھا کالا

    کالا کالا سوچتا جاتا

    کھرچ کھرچ کر نوچتا جاتا

    اپنا ہونا کھوجتا جاتا

    جملوں کی بدبو کے اندر

    اپنی خوشبو سونگھتا جاتا

    اپنی سگریٹ پھونکتا جاتا

    کالے کی سگریٹ بھی کالی

    کالے کا گردہ بھی کالا

    کالے کی کپی بھی کالی

    کالے کی چسکی بھی کالی

    کالے کا ہر کش بھی کالا

    ہر ہر کش سے لال بھبھوکا

    کالے کی آنکھیں بھی کالی

    آنکھوں سے گرنے والے سب آنسو کالے

    اور کالی آنکھوں میں دکھنے والی

    مشکل کی دیوار بھی کالی

    کالے کی تو جیت بھی کالی ہار بھی کالی

    کالے کے سب بلب بھی کالے

    کالے کی سب وائرنگ کالی

    وائرنگ وہ جو اندر اندر

    سلگ سلگ کر

    کالے کی ساری سوچوں کو

    اور خوابوں کو

    گلا چکی تھی

    جلا چکی تھی

    جب وہ چلتا تو لگتا وہ لہراتا ہے

    چلتے چلتے بل کھاتا ہے

    گر جاتا ہے

    کالا کیا تھا

    کلنگ کا ٹیکہ

    زمیں کا دھبہ

    کالا جس کی آگ میں جل کر راکھ ہوا تھا

    کالے کے اندر کی آگ تھی

    یا تھی وہ باہر کی آگ

    آگ بھی کالی

    دھواں بھی کالا راکھ بھی کالی

    آگ سے اٹھنے والا اک اک شعلہ کالا

    کالے کی بے بسی بھی کالی

    کالے کی کھجلی بھی کالی

    کالے کے سب پھوڑے پھنسی چھالے کالے

    کالے کو سب کالا کہنے والے کالے

    اک دن کالی سڑک کنارے

    بنگالی کے پان کے کیبن کی جالی کو تھامے کالا

    گھور رہا تھا آتے جاتے

    رنگ برنگے کرداروں کو

    رکشا موٹر سائیکل اور کاروں کو

    اک لمبی سی کالی گاڑی

    دھواں اڑاتی

    چیختی اور چلاتی گزری

    گہرے کالے بالوں والی گوری بچی

    ایک گلی سے بھاگتی نکلی

    کالا بھاگا

    اور گوری بچی کو پورے زور سے دھکا دے کر

    کالی گاڑی کے دھکے کو خود پر جھیلا

    کالا جاتے جاتے سب سے کیسا کھیلا

    گوری بچی بچ گئی لیکن

    کالا اپنی جاں دے بیٹھا

    پیلے لال گلابی چہرے

    کالے کی جانب جب لپکے

    سب نے دیکھا

    کالے کی آنکھوں میں چیخ رہا تھا ایک سوال

    کالے کے زخموں سے بہنے والا خون تھا لال

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے