کالے موسموں کی آخری رات
تب ہزاروں اندھیروں سے
اک روشنی کی کرن پھوٹ کر
سرد ویران کمرے کے تاریک دیوار و در سے الجھنے لگی
اور کمرے میں پھرتے ہوئے
سیکڑوں زرد ذرے
صداؤں کے آغوش پر
بلبلاتے سسکتے ہوئے
میری جانب بڑھے
میں نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی
زرد ذروں سے گویا ہوا
دوستو
آؤ بڑھتے چلیں
روشنی کی طرف روشنی کی طرف
روشنی جو ہماری تمناؤں کی پیاس ہے
روشنی کی طرف روشنی کی طرف
روشنی جو ہماری تمناؤں کی پیاس ہے
روشنی جو ہماری تمناؤں کی آس ہے
زرد ذرے میرے ساتھ بڑھنے لگے
روشنی کی طرف روشنی کی طرف
چند ذرے کہ جن کی رگوں میں
سیہ رات کی ظلمتیں بس چکی تھیں
میری باتوں پہ ہنسنے لگے
اور ہنستے رہے
تب ہزاروں اندھیروں کے سینے میں
پھیلا ہوا اک طلسم
روشنی کی تب و تاب سے
ٹوٹنے کے لیے
اور آگے بڑھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.