کار جنوں
کہا اک روز سورج نے
خود اپنے آپ سے
زمیں پر خشک سالی
بڑھ گئی ہے
زمیں کی پیاس
بڑھتی جا رہی ہے
سسکتے کھیتوں کو
وحشت زدہ
ان جنگلوں کو
بلکتی رہ گزاروں
پیاس سے بے چین وادی کو
مسلسل آہ بھرتی سر زمینوں
تھکن سے چور
انسانوں کی بستی کو
ضرورت ہے
نئے دریاؤں کی
سو اس نے
اپنی کرنوں کی انی سے
بہ طرز تیشۂ فرہاد
اک دن
پہاڑوں سے
نئے دریاؤں کے
سوتے کئے جاری
زمینوں کی انا تھی
یا مزاج موسم دوراں
جدھر سے بھی گزرتا کوئی دریا
اسے ملتی وہاں
اک بے نمو مٹی کی دنیا
مگر سورج
مسلسل اپنی دھن میں
وہی کار محبت کر رہا تھا
کہ اک دن
اک کرن سورج سے بولی
مرے پر عزم
اور پرجوش سورج
مری نظروں میں
تم شاید ابھی تک
مسلسل کار حسرت کر رہے ہو
زمیں صحرا کی
پانی سے
کہاں سیراب ہوتی ہے
برستے بادلوں کے
جانے کتنے قافلے گزرے
نہ جانے کتنے دریا
دفن ہیں
ان ریگ زاروں میں
مگر کفران نعمت کی روش
ہے آج تک قائم
کرن کی بات سن کر
مسکرایا مہر دل افروز
کہا پھر اس نے
اس ننھی کرن سے
مجھے تا دیر
یہ کار جنوں تو
کرتے رہنا ہے
کہ میری آنکھ میں
اک خواب
خیمہ زن ابھی تک ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.