کاش
اس خاموش قلعے کی
سخت لوہے سی دیواریں
ہر طرف سفید غمگین پردہ
وہ اپنی عالی شان کرسی پر بیٹھی
کوئی حساب جوڑ رہی ہے
اس کا پھیکا سپاٹ بوجھل چہرہ
جیسے بھیتر کا ایک روپ
اس کے اوپری روپ رنگ کو کھا چکا ہو
اچانک دروازے کی دستک
دبی ہوئی سسکیوں کا شور
اونچے دروازے کو کھولتے ہی
اس کی بھاؤ ویہین آنکھوں میں
سنویدناؤں کی ہلچل ہو اٹھتی ہے
صبح کی اوس نرم دھوپ میں
نازک کوپل سا ایک بچہ
اپنی چیخ کو گلے میں ٹھوس کر
اس کی طرف قلعے کی طرف
دوڑا آ رہا تھا
ابھی گلے لگا کر رو پڑے گا جیسے
وہ ایک ٹک اسے دیکھتی رہتی ہے
مگر گلے نہیں لگا پاتی وہ
اس کا ہردے کہتا ہے کہ بھیج دے اسے
واپس اس کے گھر جہاں
اس کا انتظار ہو رہا ہوگا
اس تیور اچھا کے ساتھ
برسوں سے نرلپ رہی اس کی آنکھوں میں
دبی ہوئی بھاونائیں گتی مان ہو کر بہنے لگتی ہے
ہے ایشور وہ آنکھیں موند لیتی ہے
میز پر رکھی حسابوں والی کتاب دکھائی دیتی ہے
اور نو پلوت پودے کی
نازک ڈالی جیسی انگلیاں تھام کر
وہ اسے قلعے کے بھیتر لے آتی ہے
توتینگ دروازہ کرکش آواز کے ساتھ
بند ہو جاتا ہے
وہ بلکھتے ہوئے بچہ کو آغوش میں لے لیتی ہے
خاموش کمرے میں اوس معصوم کی
دھڑکنے سانسیں سسکیوں کا شور
تیز ہو اٹھتا ہے
وہ کس کے اس بچہ کو
اپنے بھیتر سمیٹ کر گہری نیند سلا دیتی ہے
جب کوئی شور باقی نہیں رہتا تب
اس کے بھیتر کا رودن باہر آنے کو تڑپتا ہے
مگر اس کے ادھ مرے من مستشک
اسے یاد دلاتے ہے کہ
موت ماتم نہیں منا سکتی
کاش مجھے بھی حق ہوتا
دروازے پہ آئے کو واپس بھیجنے کا
کاش
بھاری قدموں پہ اٹھ کر وہ
اس کتاب میں کچھ جوڑ دیتی ہے
دن کا اجالا سوریہ کا تیج
لججت ہو کر سر جھکا لیتے ہے
ہوا بھی چھوبھت ہو کر نیلی پڑ جاتی ہے
ساری سرشٹی اندھ کار کی گرت میں ڈوبنے لگتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.