Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کاش

MORE BYدرشکا وسانی

    اس خاموش قلعے کی

    سخت لوہے سی دیواریں

    ہر طرف سفید غمگین پردہ

    وہ اپنی عالی شان کرسی پر بیٹھی

    کوئی حساب جوڑ رہی ہے

    اس کا پھیکا سپاٹ بوجھل چہرہ

    جیسے بھیتر کا ایک روپ

    اس کے اوپری روپ رنگ کو کھا چکا ہو

    اچانک دروازے کی دستک

    دبی ہوئی سسکیوں کا شور

    اونچے دروازے کو کھولتے ہی

    اس کی بھاؤ ویہین آنکھوں میں

    سنویدناؤں کی ہلچل ہو اٹھتی ہے

    صبح کی اوس نرم دھوپ میں

    نازک کوپل سا ایک بچہ

    اپنی چیخ کو گلے میں ٹھوس کر

    اس کی طرف قلعے کی طرف

    دوڑا آ رہا تھا

    ابھی گلے لگا کر رو پڑے گا جیسے

    وہ ایک ٹک اسے دیکھتی رہتی ہے

    مگر گلے نہیں لگا پاتی وہ

    اس کا ہردے کہتا ہے کہ بھیج دے اسے

    واپس اس کے گھر جہاں

    اس کا انتظار ہو رہا ہوگا

    اس تیور اچھا کے ساتھ

    برسوں سے نرلپ رہی اس کی آنکھوں میں

    دبی ہوئی بھاونائیں گتی مان ہو کر بہنے لگتی ہے

    ہے ایشور وہ آنکھیں موند لیتی ہے

    میز پر رکھی حسابوں والی کتاب دکھائی دیتی ہے

    اور نو پلوت پودے کی

    نازک ڈالی جیسی انگلیاں تھام کر

    وہ اسے قلعے کے بھیتر لے آتی ہے

    توتینگ دروازہ کرکش آواز کے ساتھ

    بند ہو جاتا ہے

    وہ بلکھتے ہوئے بچہ کو آغوش میں لے لیتی ہے

    خاموش کمرے میں اوس معصوم کی

    دھڑکنے سانسیں سسکیوں کا شور

    تیز ہو اٹھتا ہے

    وہ کس کے اس بچہ کو

    اپنے بھیتر سمیٹ کر گہری نیند سلا دیتی ہے

    جب کوئی شور باقی نہیں رہتا تب

    اس کے بھیتر کا رودن باہر آنے کو تڑپتا ہے

    مگر اس کے ادھ مرے من مستشک

    اسے یاد دلاتے ہے کہ

    موت ماتم نہیں منا سکتی

    کاش مجھے بھی حق ہوتا

    دروازے پہ آئے کو واپس بھیجنے کا

    کاش

    بھاری قدموں پہ اٹھ کر وہ

    اس کتاب میں کچھ جوڑ دیتی ہے

    دن کا اجالا سوریہ کا تیج

    لججت ہو کر سر جھکا لیتے ہے

    ہوا بھی چھوبھت ہو کر نیلی پڑ جاتی ہے

    ساری سرشٹی اندھ کار کی گرت میں ڈوبنے لگتی ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے