ہر پتھر میں چھپی ہوئی اک موت ہے جو سوچ رہی ہے
سورج کے آئینے میں جو شکل بھی ہے
وہ اندھی کالی
دیواروں سے چپکی ہیں ٹوٹی پرچھائیں
کچی اینٹوں کے پل بنتے ہیں دن میں
راتوں میں پانی پر چلتے ہیں سب لوگ
سارے پربت
ساگر پی کر آئے ہیں
تم بونوں کی بستی میں بھی چھوٹے ہو
اپنے سائے سے ڈر کر کہتی ہیں فصلیں
سانپ اگاؤ
جتنے بھی مینڈک ہیں ان کو باہر بھیجو
اپنی اپنی قبر سے اٹھ کر
راتوں میں کیوں
کتبے لوگ مٹا دیتے ہیں
سارے کاغذ پر
کتنی ہی تصویریں ہیں
رات پگھلتے سورج کا منہ دیکھ رہی ہے
اب سو جاؤ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.