کڑی دھوپ سے پہاڑوں تک
مہر تاباں کی تیز کرنوں سے
ذرہ ذرہ ہے آتش پیکر
ہر طرف ایک ہولناک سماں
ہر طرف محو اضطراب انساں
راستوں پہ ڈگر پہ کھیتوں پہ
چھا گیا ہے بخار کا غلبہ
کچھ مویشی کھڑے لب دریا
پی کے آب حیات بیٹھ رہے
ہو کے پژمردہ سبزہ زاروں سے
چل رہی ہے ہوائے کیف آگیں
گا رہے ہیں عجیب سا نغمہ
چیڑ کے پیڑ کھوئے کھوئے سے
آ رہی ہے تھکی تھکی سی صدا
سنگ ریزوں سے آبشاروں سے
اک سکوں آفریں شجر کے تلے
آ کے لیٹا ہوا ہوں گھاس پہ میں
جیسے لوری سنا رہا ہے کوئی
جیسے ہر غم سے پا چکا ہوں نجات
جیسے ہر فکر ساتھ چھوڑ چکی
پھر کسی نے اٹھا دیا آکر
اس جگہ سے بھگا دیا آکر
یہ سکوں اور یہ پیار فطرت کا
اس زمانے کی یاد میں شاید
جب کہ انسان دست فطرت کا
خوب صورت سا اک کھلونا تھا
جیسے ماؤں کی گود میں بچے
آج یہ چین یہ سکون کہاں
آج تو جنگلوں کے اندر بھی
شہر کے کاروبار چلتے ہیں
آج جنگل کی زندگی کے لئے
شہر سب سے بڑا درندہ ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.