کہاں ہیں ہم
کہاں تھے ہم
سمندر سی کسی خواہش کے ساحل پر
ہنستی بھیگتی ساعت کی سنگت میں
ہنسی کتنی سجل تھی
آنکھ کے ہر کنج میں
تتلی کی صورت اڑتی پھرتی تھی
رہ شب میں گھنا جنگل
یا کوئی اجنبی رستہ
ہمارے سامنے آتا
تو اس دیوار کے سینے سے کتنے در نکل آئے
لہو کی تال پر منزل
دھڑک اٹھتی تھی پہلو میں
کسی احساس کے دھندلے
افق سے دن نکل آتا
اور اپنے ساتھ کیا کیا
قرمزی کرنوں میں لیٹے
پیار کے سندیس لے آتا
بہت تکریم کے موسم
تہ جاں سے ابھرتے تھے
دعاؤں سے بھرے
سرسبز ہاتھوں کو یقیں تھا
جھلملاتے خواب
خوشبو خیزیوں میں فرد ہوں گے
اور تقرب کے کسی
بیتاب سے پل کو جگائیں گے
تو سرپٹ بھاگتی
یہ عمر کی ہرنی
کسی زنجیر وعدہ میں
کہیں رک کر
ہمیں چاہت سے دیکھے گی
کہاں ہیں ہم
کسی ویران ساحل پر
ہماری آرزو کی کشتیاں
اوندھی پڑی ہیں
اور جیسے نیند کے
بے تاب ہلکورے کی زد میں ہیں
اگر سورج انہیں اس نیند سے
آزاد کرنے کے لئے
کرنوں کو کوئی اذن دیتا ہے
تو وہ آنکھوں پہ
اپنے ہاتھ رکھ لیتی ہیں
گہری ناگواری سے
اور اب تو
وصل کی مشعل بھی خوابیدہ ہے
سلگن سے تہی ہے
اور اس کے دشت میں
ہر سو برابر ریشمی خوابوں کی
نیلی راکھ اڑتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.