کہاں جنس شبنم کا بازار ہے
ذرا تم دریچے سے باہر تو جھانکو
کون نالہ کناں ہے یہ کیسی فغاں ہے
اٹاری میں دیکھو
کہیں کوئی بلی نہ گھس آئی ہو
یہ کیا ہے
ابابیل کے جھنڈ کا شور ہے
دریچے کی جالی سے باہر تو دیکھو
ہر اک سمت آہ و بکا ہے
مرا دل ہے جس سے مسلسل ہراساں
مرا دل
جو الفت کے نغموں سے معمور تھا
طلسم بہاراں سے مسرور تھا
وہ دل جس کو سادہ مزاجی کا الفت کا عطیہ ملا ہے
وہ دل شور فریاد آہ و فغاں قہر ماتم کہاں تک سہے گا
دھڑکنیں تھم گئیں
زندگی دم بخود ہے
ذرا پھر دریچے سے باہر تو جھانکو
کون ہے جو لرزتا ہوا سانسیں اکھڑی ہوئی
بھاگتا جا رہا ہے
مری روح گویا شکنجے میں محبوس ہے
اٹھو غور سے اٹھ کے دیکھو
کون ہے یہ
ہراساں ہراساں کماں ایسی صورت
مجھے ایسا لگتا ہے یہ میرا سایہ ہے
جو مجھ سے کہیں پر جدا ہو گیا تھا
کون ہے شب گئے میرے در پر
کس کی دستک ہے یہ
تمہیں پیار کا واسطہ یوں نہ بیٹھے رہو
ایسے عالم میں دروازہ مت کھولنا
دریچوں کے پیچھے سے مت جھانکنا
کیسی پر ہول شب ہے جسے برف باری نے سلگا دیا
جان جاں
انگنت اشک کب سے بہاتا رہا ہوں کہ اب
چشم گریاں میں پانی نہیں ہے
کہاں جا کے ڈھونڈوں وہ اشکوں کے موتی
آنکھ کی جھیل سوکھے تو مدت ہوئی
کہاں جنس شبنم کا بازار ہے
دریچے سے باہر تو دیکھو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.