کہانی
بچو، ہم پر ہنسنے والو، آؤ، تمہیں سمجھائیں
جس کے لیے اس حال کو پہنچے، اس کا نام بتائیں
روپ نگر کی اک رانی تھی، اس سے ہوا لگاؤ
بچو، اس رانی کی کہانی سن لو اور سو جاؤ
اس پر مرنا، آہیں بھرنا، رونا، کڑھنا، جلنا
آب و ہوا پر زندہ رہنا، انگاروں پر چلنا
ہم جنگل جنگل پھرتے تھے اس کے لیے دیوانے
رشی بنے، مجنوں کہلائے، لیکن ہار نہ مانے
برسوں کیا کیا چنے چبائے، کیا کیا پاپڑ بیلے
لہروں کو ہم راز بنایا، طوفانوں سے کھیلے
دفتر بھولے، بستر بھولے، پینے لگے سراب
پل بھر آنکھ لگے، تو آئیں الٹے سیدھے خواب
نیند میں کیا کیا دیکھیں، تڑپیں، روئیں، اٹھ اٹھ جائیں
سو جانے کی گولی کھائیں، انجکشن لگوائیں
آخر وہ اک خواب میں آئی سن کے ہمارا حال
کوئل جیسی بات تھی اس کی، ہرنی جیسی چال
کہنے لگی، کوئی جی، تیرا حال نہ دیکھا جائے
میں نے کہا کہ رانی اپنی پرجا کو بہلائے
کہنے لگی کہ تو کیا لے گا: سونا، چاندی، ہار
میں نے کہا کہ رانی، تیرے مکھڑے کی تلوار
پھر دل کے آنگن میں اترا اس کا سارا روپ
اس چہرے کی شیتل کرنیں، اس مکھڑے کی دھوپ
دھوپ پڑی، تو کھل گئی آنکھیں، کھل گیا سارا بھید
غش کھایا، تو دوڑے آئے منشی، پنڈت، وید
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے چھٹ گیا کھانا پانی
چھٹ گیا کھانا پانی، بچو، ہو گئی ختم کہانی
میری کہانی میں لیکن اک بھید ہے، اس کو پاؤ
چاند کو دور ہی دور سے دیکھو چاند کے پاس نہ جاؤ
نہ اپنے گھر ہی اس کو بلاؤ
- کتاب : Kulliyat-e-Mustafa Zaidi(Gireban) (Pg. 41)
- Author : Mustafa Zaidi
- مطبع : Alhamd Publications (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.