کیسے ٹہلتا ہے چاند
کیسے ٹہلتا ہے چاند آسمان پہ
جیسے ضبط کی پہلی منزل
آواز کے علاوہ بھی انسان ہے
آنکھوں کو چھو لینے کی قیمت پہ اداس مت ہو
قبر کی شرم ابھی باقی ہے
ہنسی ہماری موت کی شہادت ہے
لحد میں پیدا ہونے والے بچے
ہماری ماں آنکھ ہے
قبر تو مٹی کا مکر ہے
پھر پرندے سورج سے پہلے کسی کا ذکر کرتے ہیں
آواز کے علاوہ بھی انسان ہے
ٹوٹے ہو
ذرا اور لہو انگار کرو
کہ میں ایک بے لباس عورت ہوں
اور جتنی چاہوں آنکھیں رکھتی ہوں
میں نے آواز کو تراشا ہے
ہے کوئی میرا مجسمہ بنانے والا
اپنی قسمت پہ اداس مت ہو
موت کی شرم ابھی باقی ہے
مجھے چادر دینے والے
تجھے حیا تک دکھ لگ جائیں
مجھے لفظ دینے والے
کاش عورت بھی جنازے کو کاندھا دے سکتی
ہر قدم زنجیر معلوم ہو رہا ہے اور میرا دل تہ کر کے رکھ دیا
گیا ہے شور مجھے لہولہان کر رہا ہے میں
اپنی قید کاٹ رہی ہوں اور اس قید میں کبھی
ہاتھ کاٹ کر پھینک دیتی ہوں کبھی
آواز کاٹ کاٹ کر پھینک رہی ہوں
میرا دل دلدل میں رہنے والا کیڑا ہے اور میں قبر سے
دھتکاری ہوئی لاش
سڑاندی ہی سڑاند سے میری آنکھوں کا
ذائقہ بد روح ہو رہا ہے
اور میں انسان کی پہلی اور آخری غلطی پر دم ہلائے
بھونکتی جا رہی ہوں
میں جب انسان تھی تو چور کی آس تک نہ تھی میں
آنکھوں میں صلیب اور دل میں اپنی لاش
لئے پھرتی ہوں
سچائیوں کے زہر سے مری ہوں
لیکن دنیا گورکن کو ڈھونڈھنے گئی ہوئی ہے
وہ مجھے آباد کرتا ہے اور آباد کہتا ہے
میں ہری بھری پیاس سے زرخیز ہو جاتی ہوں
اور پھولوں کو مٹی میں دبانے لگتی ہوں
درد میرے اژدہے کا نام ہے
اور سانپ کی بھوک میرا گھر ہے
- کتاب : AN EVENING OF CAGED BEASTS (Pg. 146)
- Author : Asif Farrukhi
- مطبع : Ameena Saiyid, Oxford University (1999)
- اشاعت : 1999
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.