سڑک کنارے بیٹھ کے اکثر
اسرائیل موت کا منظر
کھینچا کرتا
گہری رات کے کالے سائے
شنکر کے ڈمرو کی دب دب
میں رقص کرتے
خوبصورت فرشتوں کی جماعت
اک مدت سے مٹی کے پتلوں
کو ہی سجدہ کرتی
پھر اک دم سے کس نے ہواؤں
کے رخ کو بدل ڈالا
دن کو رات اور رات کو دن
میں تبدیل کر ڈالا
سبھی رنگ آسمان سے اڑا لے گیا
نہ کوئی آیا
نہ کوئی سایا
ہاں سنا ہے کہ
کمرہ نمبر 404 میں اک بیمار سی
دکھنے والی عورت
رو پڑتی ہے
ہنستے ہنستے رو پڑتی ہے
گرتے پڑتے رو پڑتی ہے
نہ جانے وہ کون سا دکھ ہے
جس کو لے کے رو پڑتی ہے
آنسو اس کے دیکھ کے میں
دکھ پی جاتا ہوں
خود کے تشنہ لب کو
دریا میں پاتا ہوں
وہ کہتی ہے
چاک گھمائی
اور آدم کی صورت بنائی
حوا کے کلیجے کو
کانٹوں سے بھر ڈالا
اور تب سے درد قید کر رکھا ہے اس
بنجر جسم میں
چھیڑ رہا ہے اک اک کر کے
میری پاک روح کو
جسے ناپاک کرنے کو کئی ہاتھ
اک ساتھ اٹھے
جسے برباد کرنے کو کئی
راگ اک ساتھ گنگنائے گئے
پر کوئی اسے آباد کرنے نہ اٹھا
میں نے خود ہی اپنی ہتھیلی
پہ جلتے سورج کو رکھا
اور بند کر لی مٹھی
بند مٹھی بھینچ کر کے
وقت کی دیوار پہ دے ماری
اور دھم کر کے وقت مانو تھم سا گیا
درد کا نقشہ میری آنکھوں
سے اتر آسمان
میں سما گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.