جب برف گری کوہساروں پر
ہم نیند میں چلنے والوں نے اک گیت لکھا تہواروں کا
کچھ کتبے گزرے لمحوں کے
جو لمحے وقت کی مٹھی سے چھینے تھے نام کوئی لے کر
کچھ آس کی بیلیں جھول رہی تھیں
لکڑی کے دروازے سے
اک سایہ ہم سے دھوپ میں بھی
رہتا تھا لمس کی دوری پر
دو زانو ہم بھی بیٹھ گئے
اک بوند مسلسل گرنے سے پتھر بھی رستہ دیتے ہیں
پھر برف پگھلنے والی تھی
اک گانٹھ لگی اس دھاگے کو جو بالکل اس سا نازک ہے اور ٹوٹ گیا تھا
سختی سے
وہ سایہ میرے سر پر ہے
ہم اک دوجے کے زخموں پر اب چوم کے مرہم رکھتے ہیں
ہم خوشبو بھیگے جسموں کی بھرتے ہیں
اپنی سانسوں میں
دیکھو ہم پھر سے ساتھ کھڑے
ہنستے ہیں گزرے وقتوں پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.