کشکول
میں جب اس شہر میں آتا ہوں سڑکوں سے گزرتا ہوں
تو اک چھوٹی سی لڑکی یاد آتی ہے
دریدہ پیرہن ٹوٹا ہوا کشکول ہاتھوں میں
اور اس کشکول میں سکے
مگر میں اس کی صورت دیکھ کر حیران ہوتا تھا
عجب سی پختگی تھی درج ان معصوم آنکھوں میں
کہ جیسے زندگی بھر تجربوں کی بھیک مانگی ہو
یہاں اس شہر کی سڑکوں پہ یوں ہی سینکڑوں بچے
لئے کشکول ہاتھوں میں
سوالی راہ گیروں سے
کسے فرصت کہ ان چیزوں کی تحریریں پڑھے سمجھے
مگر چھوٹی سی وہ لڑکی بڑی مانوس تھی مجھ سے
وہ مجھ کو دیکھتی تو بھاگ کر نزدیک آتی تھی
ذرا سا مسکراتی تھی
کہ جیسے کوئی رشتہ ہو کہ جیسے کوئی اپنا ہو
میں اس کشکول میں دو چار سکے ڈال دیتا تھا
یوں ہی بس بے ارادہ ایک دن میں اس کے گھر پہنچا
بس اک ٹوٹا ہوا بوسیدہ کمرہ تھا
اور اک ٹوٹا پلنگ جس پر
کوئی معذور عورت تھی
جو شاید اس کی ماں ہوگی
برس گزرے
اور اس چھوٹی سی لڑکی نے
جوانی کے ذرا نزدیک جب پہلا قدم رکھا
تو اس کے جسم کو شاید کوئی کشکول ہی سمجھا
کلی کھلنے نہ پائی تھی کہ خوشبو لوٹ لی اس کی
کہ وہ تو بے سہارا تھی
اسے وہ دے گیا کوئی جو مانگا ہی نہ تھا اس نے
اب اس کی گود میں ننھی سی اک معصوم بچی تھی
بہت دن بعد پھر آنا ہوا اس شہر میں میرا
تجسس مجھ کو لے آیا اسی بوسیدہ کمرے تک
وہاں کچھ بھی نہ بدلا تھا
وہی بوسیدہ کمرہ تھا وہی ٹوٹا پلنگ بھی تھا
پلنگ پر تھی وہی لڑکی
مگر اب وہ بس اک معذور عورت تھی
اسی لمحے دریدہ پیرہن چھوٹی سی اک لڑکی
لئے ٹوٹا ہوا کشکول ہاتھوں میں وہاں آئی
مجھے ایسا لگا جیسے کہانی بھی پرانی تھی
وہی کشکول اور سکے وہی چھوٹی سی اک لڑکی
اور اس کے ساتھ بھی ہونا وہی تھا
جو اب تک ہوتا آیا تھا
اسے بھی ایک دن معذور ہونا تھا
کبھی جب شہر کی سڑکوں پہ چھوٹی سی کوئی لڑکی
دریدہ پیرہن کشکول ہاتھوں میں سنبھالے
سوالی بن کے میرے پاس آتی ہے
تو میں کشکول میں دو چار سکے ڈال دیتا ہوں
کہ اک معذور عورت مجھ کو فوراً یاد آتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.