کٹاس
کمال کرتے ہیں عشق والے
یہ داستاں ہے قرون اولی سے پیشتر کی
جب ایک لڑکی سے دیوتا نے بروگ پایا
تو آنسوؤں کا محل بنایا
یہ عشق تھا سو
زمیں کی بنیاد ہل گئی تھی
سڑک کے تاروں سے مل گئی تھی
یہ عشق تھا سو
نہ اس نے لمحوں سے مات کھائی
نہ اس کو صدیاں بگاڑ پائیں
کٹاس اب بھی وہیں کھڑا ہے
ہر ایک پتھر گواہ بن کر وہیں پڑا ہے
یہ خاک پہلے ہی مضطرب تھی
اب اور حیران ہو گئی ہے
پجاریوں کے نفس کی اترن
ہوا مسلمان ہو گئی ہے
محبتوں سے بھرے صحیفے تو طاقچوں میں سجا دئے ہیں
عقیدتوں نے شوا کے آنسو وضو کے قابل بنا دئے ہیں
نصیب والے ہی آنسوؤں سے وضو کریں گے
قبائے گریہ رفو کریں گے
کٹاس اپنے ہی آپ میں گم
عدم سے الحاق کر رہا ہے
کئی مذاہب کی لو جلائے
صدائے الحاد کر رہا ہے
اور اس جھمیلے کے پاس بیٹھا
کوئی تمہیں یاد کر رہا ہے
عجب مسافت سے چور ہے یہ
عجیب فریاد کر رہا ہے
اسے نکالو یہ اس جگہ کا
سکون برباد کر رہا ہے
کمال کرتے ہیں عشق والے
یہ داستاں ہے قرون اولی سے پیشتر کی جب ایک لڑکی
سے دیوتا نے بروگ پایا
تو آنسوؤں کا محل بنایا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.