کتبہ
کل جو قبرستان سے لوٹا
تو تنہائی کا اک بوجھ اٹھا کر لایا
ایسے لگتا تھا کہ میں بجھتا دیا ہوں
اور سب لوگ تماشائی ہیں
منتظر ہیں کہ مرے بجھنے کا منظر دیکھیں
ایسے لگتا تھا کہ ہر گام پر کھلتے دہانے ہیں
مرے جسم کو آغوش میں لینے کے لیے
زندگی دور کھڑی ہنستی رہی
قہقہوں کا اک سمندر
میری جانب موج در موج بڑھا
شب کا سناٹا
فلک بوس عمارات کے ڈربوں میں وہ ہلتے ہوئے سائے
جیسے مرگھٹ کا سماں ہو
راستے ناگ کی مانند دہانے کھولے
کہیں فٹ پاتھ پہ لیٹے ہوئے بے جان سے جسم
جن پہ کھمبے یوں کھڑے تھے
جیسے یہ کتبے گڑے ہوں
پھر اچانک وہ بریکوں کی کریچ
سرخ خوں کا ایک فوارہ
وہ اک کتے کی لاش
زندگی ایک طلسمات کدہ
جس کی دیواروں کی زینت کے لیے
لمحوں کی رنگی تتلیاں پتھر ہوئیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.