کٹھور راہیں
جو الجھے دھاگوں کا ایک گچھا سا بن گئی ہیں
نہ ان کو رنگوں کی تیز برکھا سے کچھ غرض ہے
وہ تیز برکھا جو منہ اندھیرے
کسی پجارن کے کپکپاتے سفید ہونٹوں پہ ناچتی ہے
نہ ان کی منزل وہ شام غم ہے جو ایک میلا سا طشت لے کر
مسافروں سے لہو کے قطروں کی بھیک رو رو کے مانگتی ہے
دہکتے تارے حزیں دعائیں لرزتے ہاتھوں سے بانٹتی ہے
کٹھور راہیں تو آگے بڑھ کر ادا دکھا کر پلٹ گئی ہیں
پلٹ کے پہلو بدل گئی ہیں
گھنیری شب اپنی کالی کملی میں گم کھڑی ہے
یہ سوچتی ہے
بھنور کی بے نور چشم تر میں
کوئی سا سیدھا سفید رستہ ابھر کے چمکے
تو شب کا راہی ادھر کو لپکے
یہ شب کا راہی
سمے کے دھارے پہ بہتے بہتے بھنور کی صورت ابھر گیا ہے
ہزار راہوں میں گھر گیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.