میونخ میں آج کرسمس ہے
سارے مناظر نے سفید چادر اوڑھ رکھی ہے
کمرے کی کھڑکی سے آتی اداسی چہار سو پھیلتی جا رہی ہے
اندھیرا اداسیوں کے نوحے پڑھ رہا ہے
ممٹیوں سے پھسلتا نہیں کوئی کنکر
لمحے ساکت ہو گئے ہیں
الماری کے خانوں میں کچھ یادیں بکھری پڑی ہیں
سامنے پڑی کرسی جھول رہی ہے
سارا ماحول سوگوار ہے
عجیب سا ڈر ہے
جو آنسو بن کر اتر رہا ہے
آسماں سات رنگ روشنیاں
قہقہے ساز نغمگی
یہ ہجوم سال ہا سال کی مسافت ہے
کینچلی بدلنے کا احساس
آنکھوں کی خاموشی سے اتھاہ گہرائی میں اتر رہا ہے
میں ابھی لوٹ کر نہیں آئی
دل نے برسوں سے روئے عالم کی خاک چھانی ہے
تیری انکھوں میں کہیں وہ زمانے سمٹ کے آ گئے ہیں
جب کوئٹہ ائیرپورٹ سے نم ناکی نے تمہیں روانہ کیا
رقص نغمگی
چوڑیوں کی کھنک کے نیچے ہیں
بھاری ہے ان سب سازوں سے
ہاتھ خالی ہیں دل ویران ہے
دائرہ دائرہ یہ خاموشی
دائرہ دائرہ یہ تنہائی
جس میں قدیم آثار
موہن جوداڑو ھڑپہ بابل ٹیکسلا کے
جو میرے اندر لمحہ لمحہ اترتے جاتے ہیں
مجید امجد
میں فاصلوں کی کمند کی اسیر
میں تیری شالاط
رود بار کے پل پر بڑی دیر سے کھڑی ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.