خاکہ
میں مصور ہوں
پر تجھ سے نادم ہوں میں
کہ ترے تجھ سے خاکے بنانے کی میں
اب تلک یہ اکاونویں کوشش بھی پوری نہیں کر سکا ہوں
یہ میری محبت کا گہرا تعصب بھی ہو سکتا ہے
پر یہ آفاقیت کائناتی محبت کا رد عمل ہے
کہ خاکوں میں میں تیری آنکھوں پہ سالوں سے اٹکا ہوا ہوں
عجب ایک الجھن ہے
آنکھیں بناؤں یا رہنے ہی دوں
تیرے خاکے میں میں تیرے چہرے کے عضلات کو کھینچ کر
وہ ترا اک تبسم بنانے کی کوشش کو پورا اگر کر بھی لوں
پر جو تجھ میں زمانوں کی تہذیب کی اک کہانی بنی ہے
ترے لا شعوری رویوں میں اربوں برس کے حسیں ارتقا کا
وہ جو اک فسانہ
ڈی این اے کی بیسز میں ترتیب پا کر
تجھے تو بناتا ہے وہ اک فسانہ
وہ خاکوں میں آخر کو کیسے سناؤں
اے وجہ سخن
جان و رنگ غزل
کائناتی محبت کا رد عمل
اے اداسی کے ہونے میں واحد خلل
تجھ سے نادم ہوں میں
میرے وہم و گماں میں قلم میں مرے اور قرطاس میں
تیرا ہونا مسلسل نہیں ہو رہا
میری باونویں کوشش میں بھی اب تلک
تیرا خاکہ مکمل نہیں ہو رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.