خانہ بدوش
بستی سے تھوڑی دور چٹانوں کے درمیاں
ٹھہرا ہوا ہے خانہ بدوشوں کا کارواں
ان کی کہیں زمین نہ ان کا کہیں مکاں
پھرتے ہیں یوں ہی شام و سحر زیر آسماں
دھوپ اور ابر و بار کے مارے ہوئے غریب
یہ لوگ وہ ہیں جن کو غلامی نہیں نصیب
اس کارواں میں طفل بھی ہیں نوجواں بھی ہیں
بوڑھے بھی ہیں مریض بھی ہیں ناتواں بھی ہیں
میلے پھٹے لباس میں کچھ دیویاں بھی ہیں
سب زندگی سے تنگ بھی ہیں سرگراں بھی ہیں
بے زار زندگی سے ہیں پیر و جواں سبھی
الطاف شہر یار کے ہیں نوحہ خواں سبھی
ماتھے پہ سخت کوشئ پیہم کی داستاں
آنکھوں میں حزن و یاس کی گھنگھور بدلیاں
چہروں پہ تازیانۂ افلاس کے نشاں
ہر ہر ادا سے بھوک کی بیتابیاں عیاں
پیسہ اگر ملے تو حمیت بھی بیچ دیں
روٹی کا آسرا ہو تو عزت بھی بیچ دیں
اٹھے ہیں جس کی گود سے آذر وہ قوم ہے
توڑے ہیں جس نے چرخ سے اختر وہ قوم ہے
پلٹے ہیں جس نے دہر کے دفتر وہ قوم ہے
پیدا کئے ہیں جس نے پیمبر وہ قوم ہے
اب کیوں شریک حلقۂ نوع بشر نہیں
انسان ہی تو ہیں یہ کوئی جانور نہیں
آخر زمانہ ان کو ستائے گا کب تلک
کب سے جلا رہا ہے جلائے گا کب تلک
کب سے مٹا رہا ہے مٹائے گا کب تلک
ان کے لہو کو جوش نہ آئے گا کب تلک
مایوسیوں کی تہہ میں جنوں خیزیاں بھی ہیں
افلاس کی سرشت میں خونریزیاں بھی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.