خاموش ہوا بھیڑوں کا گلہ چلتے چلتے ممیا کر
جا پہنچا شاید باڑے میں بوسی رستے میں پھیلا کر
چپ چاپ کھڑا ہے دور ادھر وہ جنگل کالی چیلوں کا
سر سبز پہاڑوں کو پر ہول بنانے والی چیلوں کا
آواز نہیں آتی اب جھیل کی جانب سے مرغابی کی
سنسان فضا بے جان ہوا میں لرزاں روح خموشی کی
یوں لائی دوش پہ لاش سی کیا رنگیں دن کی بربادی کی
یہ شام یہ گہری شام یہ ہر لحظہ بڑھتی ہوئی تاریکی!
قدرت کے سکوت مجسم کی اس ہیبت زا آرائش سے
وادی کے ذرے ذرے کی ہم آہنگی کی نمائش سے
ہر نقش شجر ہر فیل نما پتھر دنیا ہے طلسموں کی
حد ہی نہیں آتی کوئی نظر اس طرفہ فسوں کی قسموں کی
ہر شے پر خواب سا طاری ہے اور میں ہوں صرف بے خوابی
لینے ہی نہیں دیتی دم مجھ کو میری فطرت سیمابی
اے کاش کبھی کم کر سکتی میرے بھی دل کی بیتابی
یہ شام یہ گہری شام یہ ہر لحظہ بڑھتی ہوئی تاریکی
میں مصنوعات کا پروردہ بلکہ انسان بھی مصنوعی
میرا سامان بھی مصنوعی میرا ایمان بھی مصنوعی
بسنے والا میدانوں کے ہنگامہ پرور شہروں کا
بے ربط سکوں سے ناواقف اور شوریدہ سر شہروں کا
میں قدرت کے اسرار و رموز پنہاں سے آگاہ کہاں
اس اندھیار کے اتھاہ سمندر کی مرے دل میں چاہ کہاں
اور مجھ کو دکھاتی ہے نور حقیقت کے جلووں کی راہ کہاں
یہ شام یہ گہری شام یہ ہر لحظہ بڑھتی ہوئی تاریکی
یہ منظر خوش آیند تو ہیں میں ان سے مگر کیوں ڈرتا ہوں
کیوں ان کی دلآویزی کو وحشت ناک تصور کرتا ہوں
کیوں مجھ کو میسر سنگ و شجر کا سا بھی سکون قلب نہیں
کیوں میری دنیا اس دنیا سے جا کے بسی ہے دور کہیں
کیوں میں نے ڈالا ہے اپنے ہی جی کو آپ ہلاکت میں
کیوں ہو ہی نہیں جاتا میں خود پیوستہ جہان قدرت میں
کیوں لے ہی نہیں لیتی مجھ کو اپنی آغوش کی وسعت میں
یہ شام یہ گہری تاریکی یہ ہر لحظہ بڑھتی ہوئی تاریکی
- کتاب : meri behtareen nazam (Pg. 95)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.