خموشی دستک نقاب
خموشی
خموشی
مسلسل خموشی تھی دل کے نگر میں
خموشی ہی تقدیر انساں ہو جیسے
کہ اک دن اچانک
در دل پہ دستک ہوئی
مسرت مدھر گیت گانے لگی
تمناؤں کے لب پہ بھی پھول کھلنے لگے
رخ وقت سے
سرکنے لگیں چادروں کی تہیں
وہ چہرہ
ہزاروں میں جو ایک تھا
تصور کی آنکھوں کی پتلی بنا
وہ لب جن کو فرمایا ہے میر نے
گل سرخ کی پنکھڑی
خیالات کو کر گئے شکریں
حنا رنگ ساری فضا ہو گئی
وہ گیسو
گھٹائیں بھی دیتی تھیں جن کو خراج
دل و دیدہ پر چھا گئے
سکوں راز تخئیل دکھلا گئے
مگر شوق کے ہاتھ نے بڑھ کے کھولا جو در
نہ تھا کوئی چہرہ
نہ لب تھے
نہ گیسو
فقط اک ہیولیٰ تھا زیر نقاب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.