Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خرابات

فضل الرحمٰن

خرابات

فضل الرحمٰن

MORE BYفضل الرحمٰن

    سنہری شام ہے ساقی

    شفق گلفام ہے ساقی

    بڑھا ساغر کہ مے نوشی

    مبارک کام ہے ساقی

    ہیں خالی جس قدر پیالے

    شراب سرخ سے بھر دے

    تجھے کیا ظرف زریں یا

    سفالی جام ہے ساقی

    یہ خم کیوں کیوں یہ پیمانہ

    لٹا دے سارا مے خانہ

    مسرت جس کو کہتے ہیں

    متاع عام ہے ساقی

    نہ ہشیاری نہ بے ہوشی

    ہو کچھ مستی کچھ آگاہی

    خرد مندان عالم کا

    یہی پیغام ہے ساقی

    گلے ملتے تھے جو باہم

    ہیں خنجر بر گلو پیہم

    لب اعجاز بھی گویا

    لب دشنام ہے ساقی

    بہ ہر جا حرص کے پھندے

    ہوس ناکی کے سب بندے

    گرفتار خم کاکل

    عبث بدنام ہے ساقی

    عقاب چرخ پیما ہو

    ہما ہو یا کہ عنقا ہو

    ریاض رنگ و نکہت میں

    اسیر دام ہے ساقی

    رخ و گیسو کا نظارہ

    مرقع نور و ظلمت کا

    مکدر صبح یا شاید

    منور شام ہے ساقی

    شباب و حسن دلبر کا

    تماشا ہے گھڑی بھر کا

    دوامی نشۂ الفت

    خیال خام ہے ساقی

    یہی اک لمحۂ عشرت

    یہی اک عیش کی ساعت

    یہی آغاز ہستی کا

    یہی انجام ہے ساقی

    تلاش بے خودی میں اب

    ہوں وقف بادہ روز و شب

    اسی اک کام کے لائق

    دل ناکام ہے ساقی

    ادھر ہے کلفت ماضی

    ادھر امید فردا کی

    عجب بیم و رجا ہے کچھ

    عجب ہنگام ہے ساقی

    بچا آفت سے ہر دل کو

    نگاہ بد سے محفل کو

    کہ جو تیر نظر ہے یاں

    وہ خوں آشام ہے ساقی

    کلید مخزن عرفاں

    نوید روضۂ رضواں

    قدح کی شمع روشن رکھ

    شب اوہام ہے ساقی

    کلیسا ہو کہ مندر ہو

    در مسجد کہ منبر ہو

    نہ ہو گر جستجوئے حق

    غلط اقدام ہے ساقی

    ترے رطل گراں کی ہے

    جو قیمت زندگی سی شے

    تو نقد ہوش و دین و دل

    ترا انعام ہے ساقی

    جہاں تو جلوہ فرما ہو

    جہاں تو چہرہ آرا ہو

    دام راحت سے واں خوشتر

    دل آلام ہے ساقی

    سرور جاودانی تو

    فروغ زندگانی تو

    بہار آرزو تجھ بن

    برائے نام ہے ساقی

    نرا سا ہے جہاں کب سے

    ہے پیاسا کارواں کب سے

    قریب چشمۂ حیواں

    یہ تشنہ کام ہے ساقی

    حیات تازہ کا صدقہ

    پلا دے جرعہ پر جرعہ

    شگوفے نو شگفتہ گل

    سمن اندام ہے ساقی

    بیاباں میں ہیں برساتیں

    چمن میں چاندنی راتیں

    زمیں صہبائے موسم سے

    برنگ جام ہے ساقی

    خوشی کے چہچہے ہر سو

    ہنسی اور قہقہے ہر سو

    دلوں میں کس لئے آخر

    غم ایام ہے ساقی

    نشیمن شاخ طوبیٰ پر

    بنا سکتے نہیں طائر

    کہ بازو پر شکستہ اور

    فلک رس بام ہے ساقی

    عطا ہو عزم حکمت کو

    بلندی فکر و ہمت کو

    تو راہ جادۂ مقصد

    فقط اک گام ہے ساقی

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے