خط راہ گزار
سلسلے خواب کے گمنام جزیروں کی طرح
سینۂ آب پہ ہیں رقص کناں
کون سمجھے کہ یہ اندیشۂ فردا کی فسوں کاری ہے
ماہ و خورشید نے پھینکے ہیں کئی جال ادھر
تیرگی گیسوئے شب تار کی زنجیر لیے
میرے خوابوں کو جکڑنے کے لیے آئی ہے
یہ طلسم سحر و شام بھلا کیا جانے
کتنے دل خون ہیں انگشت حنائی کے لیے
کتنے دل بجھ گئے جب روئے نگاراں میں چمک آئی ہے
خواب ہیں قید مکاں قید زماں سے آگے
کس کو مل سکتا ہے اڑتے ہوئے لمحوں کا سراغ
کتنی صدیوں کی مسافت سے ابھرتا ہے
خط راہ گزار
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.