یوں ہی
کچھ تلاش کرتے ہوئے اچانک
اک پرانا اور بوسیدہ خط ملا ہے
گزشتہ کئی سالوں کا طویل راستہ یوں پل بھر میں طے ہو گیا ہے
یادوں کے جھروکوں سے
لگا ہے جھانکنے
شام کا وہی حسین منظر
اس پرزے نے میری انگلی تھام لی
اور لے آیا ہے مجھے
ان ہی دیرینہ راستوں تک ماضی کے گم شدہ فاصلوں تک
اسی ساحل پر
جس کا ذکر اس خط میں ہے
یادوں کے اس کھیت تک
سمندر کی ٹھنڈی ریت تک
کچے کچے وہ گھروندے
جو وقت نے مٹا دئے ہوں گے
یاد آیا ہے مجھ کو وہ گزرا زمانہ
وہ عارضی سا کوئی ٹھکانہ
لیکن یہ کیا
سمندر کا وہ نمکین پانی
جس نے کبھی میرے پیروں کو بھگو دیا تھا آج وہی نمک میری آنکھوں میں اترتا جا رہا ہے
اور یہ معصوم پرزہ میرے ہاتھوں میں تھرتھرا رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.