میں چراغ سر منزل ہوں مجھے جلنے دے
میری خاطر تو نہ کر عیش بہاراں سے گریز
تیری دنیا میں شگوفے ہیں بہاروں کا شباب
مجھ کو کانٹوں سے گزرنا ہے رہ ہستی میں
تیری دنیا ہے سرور مے و مینا کا حصول
مجھ کو ہر گام پہ اپنا ہی لہو پینا ہے
تیری ٹھوکر سے چمک اٹھتے ہیں کتنے خورشید
میری راہوں میں مرے داغ جگر روشن ہیں
میں نے ظلمت کو مٹانے کی قسم کھائی ہے
مجھ کو آواز نہ دے مجھ کو پریشان نہ کر
میری خاطر تو نہ کر عیش بہاراں سے گریز
میں تجھے بھول گیا ایسی کوئی بات نہیں
ہاں مگر کشمکش سود و زیاں باقی ہے
اب بھی کانٹے ہیں محبت کی گذر گاہوں میں
اب بھی ہر راہ پہ رہزن ہیں بشکل رہبر
اب بھی احساس مٹا دیتی ہے سکے کی کھنک
اب بھی بازار وفا سرد ہے ماضی کی طرح
اب بھی مجبور ہے شاعر کسی مفلس کی طرح
مجھ کو پیغام محبت نہ سنا جلنے دے
اپنے افسانے کا عنواں نہ بنا جلنے دے
میں نے ظلمت کو مٹانے کی قسم کھائی ہے
مجھ کو آواز نہ دے مجھ کو پریشان نہ کر
میری خاطر تو نہ کر عیش بہاراں سے گریز
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.