کھڑکی
یہ کھڑکی
میری دوست میری رفیق
میری رازدار
میرے دل کی سب دھڑکنوں کی امیں
مسرت کے لمحات
اور بے کراں غم کے سائے
سب اترے میری زندگی میں
میری سرد تنہائیوں میں
اسی کے سہارے
یہیں میں نے سر رکھ کر اکثر بنے
ان گنت خواب
ادھورے
مکمل
حسین
مرتب کئے خاکے مستقبل نارسا کے
یہیں سے کبھی مڑ کے دیکھا
کہ ماضی اندھیروں میں لپٹا ہوا ہے
مگر چند باریک کرنیں بھی
دامن میں انگڑائیاں لے رہی ہیں
گھٹا ٹوپ راتوں میں برسات کی
اڑیں جیسے آوارہ جگنو
یہیں میں نے جانا
کہ اتنی ہی پیاری ہیں ماضی کی تاریکیاں
جتنی پیاری ہے مستقبل نارسا کی چمک
مگر حال
اس کا کہاں ہے وجود
زمانہ ہے ماضی
زمانہ ہے مستقبل
اور حال ایک واہمہ ہے
کسی لمحہ کو میں نے جب
چھونا چاہا
پھسل کر وہ خود بن گیا ایک ماضی
کسی نے کبھی حال کو اپنے دیکھا نہیں
کسی نے کبھی حال کو اپنے پرکھا نہیں
اور مستقبل اتنا ہے دور
کہ اس تک کبھی ہاتھ پہنچا نہیں
تبھی تو مجھے
آپ کو
ساری دنیا کو
ملتی ہے ماضی میں اپنے پناہ
یہاں سے بہت دور
مستقبل نارسا کا دھندلکا جہاں
خیمہ زن ہے
سجائی ہے ماضی نے بھی دیکھیے
وہیں جگنوؤں کی برات
کبھی مجھ سے دل پوچھتا ہے
کبھی دل سے میں پوچھتی ہوں
یہ کھڑکی نہ ہوتی
تو کیا ہوتا
میں کہاں ہوتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.