خدمت ادب
جب تک ادب برائے ادب کا رہا خیال
ادبار و مفلسی سے رہے ہم شکستہ حال
سائے کی طرح ساتھ نحوست لگی رہی
اک روگ بن کے جان سے عسرت لگی رہی
گو شاعری کا رنگ نکھرتا چلا گیا
شیرازۂ معاش بکھرتا چلا گیا
لیکن خدا بھلا کرے اک مہربان کا
جن کو ادب برائے شکم کا ہے تجربہ
موصوف نے بتائی ہمیں وہ پتے کی بات
اب دن ہے روز عید تو شب ہے شب برات
آل انڈیا مشاعرہ مجلس کے نام سے
کھولا ہے اک ادارۂ نو دھوم دھام سے
کرتے ہیں شاعری کے عوض اب مشاعرہ
اس روزگار سے ہے ہمیں خوب فائدہ
ہر تین چار ماہ کے وقفے پہ بے خلل
اپنے پروگرام پہ کرتے ہیں ہم عمل
یعنی مشاعرے کا چلاتے ہیں کاروبار
چھپوا کے روز ناموں میں جھوٹا یہ اشتہار
جوشؔ و فراقؔ و ساحرؔ او پرویزؔ شاہدی
فیضؔ و خلیلؔ و جذبیؔ او مخدومؔ و جعفریؔ
کرسی و عرش و لوح و قلم سب ہی آئیں گے
تازہ کلام اپنی زباں سے سنائیں گے
اس اشتہار میں وہ کشش ہے کہ اہل ذوق
لیتے ہیں داخلے کا ٹکٹ دوڑ کر بہ شوق
سرکس میں جس طرح سے ہو خلقت کا اژدہام
یوں ہی مشاعرے میں پہنچتے ہیں خاص و عام
سب لوگ بیٹھ جاتے ہیں فرش زمیں پہ جب
مائک پہ جا کے کرتے ہیں اعلان ہم یہ تب
افسوس ہے کہ آ نہ سکے جوشؔ اور فراقؔ
یہ ماسکو روانہ ہوئے وہ گئے عراق
جذبیؔ کو اختلاج ہے پرویزؔ ہیں علیل
گاڑی ذرا سی چوک سے مس کر گئے خلیلؔ
بھیجی ہے فیضؔ و ساحرؔ و مخدومؔ نے خبر
سیٹ ان کو مل سکی نہ ہوائی جہاز پر
گو یہ خبر دلوں کو گزرتی ہے ناگوار
ہونا ہے جلسہ گاہ میں تھوڑا سا انتشار
لے کر مگر ذہانت فطری سے کام ہم
دم بھر میں سامعین کو کرتے ہیں رام ہم
ڈائس پہ تک فروشوں کا رہتا ہے اک ہجوم
فلمی دھنوں میں گانے کی جن کے بڑی ہے دھوم
جو خود ٹکٹ خرید کے آتے ہیں بزم میں
ہم ان سے اپنا کام چلاتے ہیں بزم میں
لے لے کے گٹکری جو سناتے ہیں وہ کلام
اڑتے ہیں واہ واہ کے نعروں سے سقف و بام
بزم نشاط بنتا ہے سارا مشاعرہ
ہوتا ہے کامیاب ہمارا مشاعرہ
خوش خوش گھروں کو جاتے ہیں حضار اک طرف
نوٹوں کا ہم لگاتے ہیں انبار اک طرف
یہ خدمت ادب کا طریقہ ہے لا جواب
پیشہ یہ وہ ہے جس میں منافع ہے بے حساب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.