خزاں کے پھول
یہ تنگنائے قفس یہ سیاست صیاد
یہ آب و گل کے تلاطم یہ وسعت برباد
یہ تیرگی یہ دل مہر و ماہ کی دھڑکن
یہ آنسوؤں کے ستارے یہ عصمتوں کے کفن
یہ بھیگتی ہوئی پلکیں یہ ٹوٹتے ہوئے دل
یہ ریگ زار حقیقت یہ پردۂ محمل
یہ چیختی ہوئی روحیں یہ حسرتوں کے صنم
یہ بزم کفر و یقیں یہ جہان دیر و حرم
یہ شور حشر یہ پیکار سبحہ و زنار
یہ جاں گداز فضائیں یہ روح سوز بہار
یہ آندھیوں کی قطاریں یہ کاروان حیات
نہ پوچھ کتنے شگوفے ہیں مرکز آفات
سواد زیست میں طوفان آئے ہیں کیا کیا
چراغ صدق و صفا جھلملائے ہیں کیا کیا
ایاغ چھوٹ پڑے مے کشوں کے ہاتھوں سے
عیاں دلوں کی سیاہی ہے کتنے ہاتھوں سے
نگل چکی شب غم کن سحر شکاروں کو
کہ زلزلوں نے جگایا ہے فتنہ زاروں کو
حیات مرگ محبت پہ نوحہ خواں ہے ابھی
وہی فسانۂ افلاس جاں ستاں ہے ابھی
اداس اداس سی راتیں تھکے تھکے سے نجوم
یہ ابر و باد کی یورش یہ بجلیوں کا ہجوم
یہ تیرہ بزم جہاں یہ شکست قلب و نظر
محل بنائے ہیں قارونیوں نے لاشوں پر
دلوں پہ یاس کے ہوتے رہے ستم کیا کیا
کراہتے رہے زلفوں کے پیچ و خم کیا کیا
دیار شوق میں گونجے ہیں مرثیے کتنے
بجھا گئی ہے نسیم سحر دیے کتنے
وہی صداقت و احساس کے جنازے ہیں
ازار گنگ و جمن پر لہو کے غازے ہیں
وہی خدا ہیں وہی بت وہی رسول ابھی
سمنستاں میں ہیں باقی خزاں کے پھول ابھی
چمن ہزار سموم خزاں سے کھیلے ہیں
مگر ہنوز وہی بے بسی کے میلے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.