کھوئے ہوئے زمانے
کیوں یاد آ رہے ہیں بھولے ہوئے فسانے
گزری ہوئی بہاریں کھوئے ہوئے زمانے
یا ایک برگ گل کو آنکھیں ترس رہی ہیں
یا اپنے دامنوں میں پھولوں کے تھے خزانے
یا آج خاک و صرصر ہیں ان کی وجہ زینت
یا تھے یہی گلستاں کل تک نگار خانے
یا آج خار و خس بھی ہم کو نہیں میسر
یا تھے کبھی گلوں کے جھرمٹ میں آشیانے
اب تک وہی صدائیں کانوں میں آ رہی ہیں
وہ چہچہے وہ نغمے وہ راگ وہ ترانے
ہے یاد ہم صفیرو تم کو وہ عہد اپنا
بجتے تھے جب خوشی کے ہر وقت شادیانے
جب تھیں مسرتوں کی لہریں ہر ایک دل میں
ہر وقت ڈھونڈھتے تھے تفریح کے بہانے
حسن و شباب کے وہ پر کیف عہد زریں
وہ عشق و عاشقی کے دلچسپ کارخانے
وہ جشن عیش و راحت وہ ساز لطف و عشرت
آنکھوں میں پھر رہے ہیں اب تک وہی زمانے
ناداں سمجھ کے ہم کو صیاد نے چمن میں
دام ہوس بچھا کر ڈالے وہ چند دانے
جن کے لئے ہم اب تک پچھتا رہے ہیں ہمدم
کنج قفس کے اندر کھا کھا کے تازیانے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.