کھویا ہوا گاؤں
آئیں گے اک دن پردیس والے
اے گاؤں تھوڑے آنسو بچا لے
یاد آ رہے ہیں کھیتوں کے پھیرے
گیلی منڈیریں بھیگے سویرے
بادل کے پیچھے سونے کی تھالی
تھوڑا سا کاجل تھوڑی سی لالی
پیڑوں کے نیچے دھندلے اجالے
مسجد کے اوپر اڑتے کبوتر
پیپل کا سایا مندر کی چھت پر
پنگھٹ سے لے کر گھر کی گلی تک
بھولے نہیں ہیں دل کو ابھی تک
وہ پھول نیلے تالاب والے
پیپل پہ گونجے کوئل کی کو کو
بھیگی ہوا میں مٹی کی خوشبو
امرائیوں میں چرواہے جھومیں
ریوڑ چرائیں کھیتوں میں گھومیں
لاٹھی اٹھائے چادر سنبھالے
گھر کے سویرے باغوں کی شامیں
دل اڑ رہا ہے ٹھنڈی ہوا میں
پنگھٹ کا پتھر چھیا رے چھیا
بے تال پانی گہری تلیا
بیٹھی ہے گوری پیر اپنے ڈالے
چکی پہ آٹا پیسے سہاگن
ماتھے پہ بندیا ہاتھوں میں کنگن
تھالی کٹورا چوکا رسوئی
رہتی ہو جیسے کچھ کھوئی کھوئی
جلتے توے پر انگلی جلا لے
لگتا ہے سب کچھ گم ہو گیا ہے
سپنے بچے ہیں من کھو گیا ہے
کس گاؤں میں ہوگا اب گاؤں اپنا
جانے نہ کوئی جی کا تڑپنا
دکھ سکھ کریں ہم کس کے حوالے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.