خودداری
تیرا یہ کہتے ہوئے سینے میں دل ہلتا نہیں
ہم نشیں کیوں خود پرستاروں سے میں ملتا نہیں
پوچھتا ہے مجھ سے اس مہمل سے فقرے کا جواب
سن کئے دیتا ہوں میں ساری حقیقت بے نقاب
سینۂ شاعر میں پنہاں جذبۂ خوددار ہے
آنکھ بھی روشن ہے میری روح بھی بیدار ہے
ان کے آگے روح میری پیچ و خم کھاتی رہی
پھبتیاں کستا رہا دل روح شرماتی رہی
سرد مہری سے تمنائے دلی شل ہو گئی
بار غم سے غیرت تقدیر بوجھل ہو گئی
گرمیٔ خورشید سے سونا پگھلتا ہے کہیں
جوہری بھی نقص کے سانچے میں ڈھلتا ہے کہیں
جب رعونت چھیڑتی ہے خود پرستی کا ستار
بھیس میں آہوں کے دل ہوتا ہے میرا نغمہ بار
قلب میرا دولت احساس کھو سکتا نہیں
آب و تاب زر میں خودداری ڈبو سکتا نہیں
مٹ نہیں سکتا مٹائے سے غیورانہ شکوہ
کیا بنا سکتا ہے اخلاقی درندوں کا گروہ
جذبۂ غیرت کسی کے پاؤں پڑ سکتا نہیں
مر تو سکتا ہوں زمیں میں زندہ گڑ سکتا نہیں
رہزن انسانیت رہتے ہیں ہر دم گھات میں
اپنی عظمت کا کوئی رکھتے ہیں پہلو بات میں
غیرت مخلص ہلاک جذبۂ پندار ہو
اے حریف ذہن و دل بیدار ہو بیدار ہو
ان کی بے حس کھال پر کوئی اثر ہوتا نہیں
تنگ نظروں میں حقیقت کا گزر ہوتا نہیں
میری تاریخ و ادب ہی میں نہیں الفاظ لاف
بندہ پرور ہے مجھے کم مائیگی کا اعتراف
ایسی حالت میں کسی سے جھک کے ملنا ہے گناہ
یہ خلوص بے محل کرتا ہے روحوں کو سیاہ
اپنا دل اپنے ہی ہاتھوں سے مسل سکتا نہیں
ہم نشیں میں اپنی فطرت کو بدل سکتا نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.