خوابوں کی بدلی تھی وہ ایک
خوابوں کی بدلی تھی وہ ایک
گھمڑ گھمڑ کے آدھی رات کو چھائی تھی وہ
کیا کیا نہ اسباب سمیٹے
کتنے لمحے کتنی یادیں
سیلی گیلی
تاریخیں تو کلنڈر کو
چھوڑ کے کب کی جا ہی چکی تھیں
جو بھی بچا تھا
وقت سمیٹ کے اوپر رکھا
گھر کی ایک ایک چیز پہ جو وہ
لمس چھپا تھا بہ نہ جائے
اس کی خاطر
جسم پہ اس کو دھار لیا تھا
کچھ بھی تو بچنا مشکل تھا
پلکوں تک پانی آتا تھا
کیسا تو سیلاب بپا تھا
کوشش اتنی کرنے پر بھی
صبح ہوئی تو کچھ بھی میرے پاس نہیں تھا
آنسو تک بھی میرا دامن چھوڑ چکے تھے
خوابوں کی کیسی بدلی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.