خوابوں کی راکھ
میں نے سوچا تھا کبھی میں نے یہ چاہا تھا کبھی
زندگی اپنی محبت کی گراں بار نہ ہو
تیرے جلوے مری آنکھوں سے کبھی دور نہ ہوں
فاصلہ اپنے لئے راہ کی دیوار نہ ہو
میں نے سوچا تھا کبھی میں نے یہ سمجھا تھا کبھی
میری جاں مستئ افکار و نظر ہے تجھ سے
زلف و رخسار کی اڑتی ہوئی خوشبو کی قسم
رونق سلسلۂ شام و سحر ہے تجھ سے
میں نے سوچا تھا کبھی میں نے یہ چاہا تھا کبھی
میری بکھری ہوئی آواز کا جادو تو ہے
میری تخئیل پہ لہرائی ہوئی قوس قزح
میرے احساس پہ چھائی ہوئی خوشبو تو ہے
میری فردوس تصور تری الفت کی قسم
مرکز نظم و غزل تجھ کو بنایا میں نے
میری تخئیل میں اے گلشن نیرنگ نگاہ
اپنے نغموں سے شبستان سجایا میں نے
میں نے سمجھا کبھی عذراؔ کبھی سیتاؔ تجھ کو
کبھی شیریںؔ نظر آئی ہے مجھے ماہ جبیں
کبھی اک پیکر معصوم زلیخاؔ بن کر
میری افسردہ سی دنیا کو کیا تو نے حسیں
پھر فروغ لب و رخسار سے اے شعلہ بدن
دل میں ارمان کی شمعوں کو جلایا میں نے
دشت وحشت میں لئے قافلۂ شوق تمام
اپنی منزل کا پتہ عزم سے پایا میں نے
ظلمت یاس میں مضطر دل و دیدہ کے لئے
شام گیسو لئے آتی ہے رہی پیغام سحر
بارہا تیری نگاہوں کا فسوں جاگ اٹھا
جھلملاتے ہوئے تاروں میں مری رشک قمر
کیا بتاؤں تری الفت میں مری جان وفا
میں نے ہنس ہنس کے اٹھائے ہیں زمانے کے ستم
آج لیکن مجھے حالات نے مجبور کیا
میں بھٹکتا ہوں پریشان لئے بار الم
آج معلوم ہوا آتش ہجراں کیا ہے
میری پلکوں پہ مرے اشکوں بھی جل جاتے ہیں
ہم سفر ملتے ہیں دوران سفر کچھ ایسے
جو سر منزل مقصود بدل جاتے ہیں
خواب و ارمان کی ہے راکھ مرے دامن میں
سوچتا ہوں تری چاہت نے دیا کیا مجھ کو
جانتا ہوں کہ مٹائیں گے سر ہستی سے
ایک دن اشک و الم جان تمنا مجھ کو
آج یہ راز کھلا آج یہ معلوم ہوا
تیرا دل میرے لئے تو کبھی بیتاب نہ تھا
کتنی بے رنگ ہوئی تیری محبت کی کتاب
اس فسانے میں حقیقت کا کوئی باب نہ تھا
میرا سوچا مرا سمجھا مرا چاہا نہ ہوا
میری آنکھوں کا کوئی خواب ترا خواب نہ تھا
- کتاب : Dard aashna (Pg. 51)
- Author : Abdullah Sajid
- مطبع : Abdullah Sajid
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.