خواہشیں اور خون
میں نے آشاؤں کی آنکھیں
چہرے ہونٹ اور نیلے بازو
نوچ لیے ہیں
ان کے گرم لہو سے میں نے
اپنے ہاتھ بھگو ڈالے ہیں
دوپہروں کی تپتی دھوپ میں
خواہشیں اپنے جسم اٹھا کر
چوبی کھڑکی کے شیشوں سے
اکثر جھانکتی رہتی ہیں
آنکھیں ہونٹ اور زخمی بازو
جانے کیا کچھ مجھ سے کہتے رہتے ہیں
جانے کیا کچھ ان سے کہتا رہتا ہوں
رات گئے تک زخمی خواہشیں
بستر کی اک اک سلوٹ سے
نکل نکل کر روتی ہیں
اور سحر کو ان کے خون سے
اپنے ہاتھ بھگو لیتا ہوں
- کتاب : Prindey,phool taalab (Pg. 98)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.