خواہشوں کے آس پاس
کھوکھلے سینوں میں بہتا ہے مسیحائی عذاب
خیر و شر کے مسئلے سب آج بھی ہم دوش ہیں
رقص موسیقی ادب احساس اور فکر و بیاں
کرب میں ڈوبے ہوئے خاکستر خاموش ہیں
تشنگی منہ کھول کر لیٹی ہے جلتے فرش پر
آسماں روئے تو تر ہو آرزؤں کا لباس
خواہشوں کی میٹھی میٹھی آنچ کی لذت میں گم
آدمی بس گھومتا ہے خواہشوں کے آس پاس
لوگ ننگے جسم بے چہرہ درختوں کی طرح
ڈھونڈتے ہیں اپنے باطن میں ہوس کی تازگی
چند تیرہ ساعتوں کی جادوئی لو کے طفیل
ہم وجودوں کی دراڑوں میں پھنسے ہیں آج بھی
ہاتھ میں خنجر نگاہوں میں لیے کچھ مسئلے
ہر بشر پر خندہ زن یہ کوئی ڈائن ہے کہ رات
اپنے آنچل میں سمیٹے کل جہاں کی ظلمتیں
محو غفلت بھیلنی کا تلخ جوبن ہے کہ رات
پتھروں پر جسم رگڑو قوتیں یکجا کرو
خود کو سلگاؤ کہ ساری رات یہ مشعل جلے
آگ ہی تو شان لب ہے آگ اگلتے جاؤ تم
خواہ شہر دل جلے یا جسم کا جنگل جلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.