خواجہ سرا
چھیل چھبیلا
ٹھمک ٹھمک کر بیچ سڑک میں
آتی جاتی ہر گاڑی سے
بھیک کی پونجی اچک رہا ہے
فقرے کستے کالج کے نوخیز جوانوں سے ہنس ہنس کر
باتیں کرتا مٹک رہا ہے
چوراہے کا اشارہ بے شرمی سے گھور رہا ہے
لال پراندہ لپک لپک کر
نقلی کولھوں کو مس کرتا لٹک رہا ہے
جعلی ڈھلوانوں سے وہ رنگین دوپٹہ
ایک طرف کو ڈھلک رہا ہے
کالی گاڑی والا کتنی بے زاری سے
ہاتھ کو اس کے جھٹک رہا ہے
پیروں میں گھنگرو چھنکاتا
مردانہ چہرے پر مل کر جھوٹ کا غازہ
نسوانی رنگوں میں لتھڑا ایک ہیولیٰ
جسم اور جنس کے گھن چکر میں بھٹک رہا ہے
اب وہ تھوڑا دم لینے کو
زرد اشارے کے سائے میں آ بیٹھا ہے
زرد اشارہ افسردہ ہے
آج بھی اس سے پوچھ رہا ہے
لولے لنگڑے اندھے بہرے
کتنے ہی معذور یہاں پر روز آتے ہیں
تم کیسے معذور ہو جس کی جنس نہیں ہے
طیش میں آ کر وہ کہتا ہے
نہیں نہیں یہ جھوٹ ہے بالکل
میں اک آدھا مرد ہوں لیکن
اپنی آدھی جنس کہیں پر کھو بیٹھا ہوں
زرد اشارہ طعنہ زن ہے
گر تم آدھے مرد تھے تو پھر
آخر تم نے عورت ہی کا روپ کیوں دھارا
زہر آلود نگاہوں سے وہ زرد اشارے کو تکتا ہے
اور تیکھے انداز میں یوں گویا ہوتا ہے
جنس زدہ لوگوں میں گھر کر زندہ رہنا
کب آساں ہے
عورت ہی کا روپ ہے جس سے
ہوس کے مارے ان لوگوں کو دلچسپی ہے
عورت ہی کی مجبوری کا مول لگا کر
ان لوگوں کو حظ ملتا ہے
تم کیا جانو پیٹ کا یہ دوزخ بھرنے کو
کیسے خود کو بیچ کے یہ کاغذ ملتا ہے
زرد اشارہ رو پڑتا ہے
روتے روتے پھر کہتا ہے
یہ بتلاؤ اتنی ذلت اور حقارت آخر کیسے سہہ لیتے ہو
سچ کہنا ایسے بھی انسان تو ہوں گے
جن سے تم نے
انساں ہونے کے ناتے ہی
کچھ تو عزت پائی ہوگی
کجراری آنکھوں سے پونچھ کے اپنے آنسو
اک تلخی سے وہ کہتا ہے
ہم سے اسفل بے توقیروں کو عز و تکریم سے کیا ہے
شکر خدا کا مفت کی سانسیں ملی ہوئی ہیں
ہم کو تو اتنا بھی غنیمت ہے کہ ہم نے
اپنی اپنی ان دیکھی ماؤں کی مقدس
کوکھ میں پورے نو مہینے عزت پائی
سبز اشارہ جل اٹھا ہے
دور کسی گاڑی سے اک اخبار کا ٹکڑا
بیچ سڑک میں آن گرا ہے
سرکاری بھرتی کی اک تشہیر ہے جس میں
مرد اور عورت دونوں ہی کو اہل لکھا ہے
روند کے اپنے پیر کے نیچے
یہ تحقیر آمیز تراشا
چھیل چھبیلا
ٹھمک ٹھمک کر بیچ سڑک میں
آتی جاتی ہر گاڑی سے
بھیک کی پونجی اچک رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.