کس شان سے جیتے تھے یہاں خوار ہوئے کیوں
طارقؔ کیا کبھی قوم کا نوحہ بھی لکھو گے
یا بس در دولت کا قصیدہ ہی لکھو گے
انگشت نمائی سدا اغیار پہ ہوگی
یا جرم کبھی کوئی تم اپنا بھی لکھو گے
جو دل پہ گزرتے ہیں وہ صدمات لکھو اب
چھوڑو یہ قصیدہ کوئی حق بات لکھو اب
کیوں اپنی وفاؤں کے بھرم ٹوٹ رہے ہیں
کیوں ہم پہ ہی یہ ظلم و ستم ٹوٹ رہے ہیں
جس قوم کی میراث تھے یہ علم و شجاعت
کیوں اس پہ ہی شمشیر و قلم ٹوٹ رہے ہیں
ہر ظالم و ظلمت کو ہیں مطلوب ہمی کیوں
سوچا ہے کبھی ہوتے ہیں معتوب ہمی کیوں
کچھ اپنی تباہی کے بھی اسباب لکھو اب
جس باب پہ شرمندہ ہو وہ باب لکھو اب
مخدوش ہیں کیوں منبر و محراب لکھو اب
سونے جو نہیں دیتے ہیں وہ خواب لکھو اب
سوچا ہے کبھی آج یہ حالت ہے تو کیوں ہے
ہر گام پہ تحقیر ہے ذلت ہے تو کیوں ہے
کل وقت کے سینے پہ کف پا تھے ہمارے
یہ دشت و جبل اور یہ دریا تھے ہمارے
یہ سات سمندر تھے یہ صحرا تھے ہمارے
قدموں تلے مریخ و ثریا تھے ہمارے
تاریخ فقط محو قصیدہ تھی ہماری
گرویدہ اخلاق حمیدہ تھی ہماری
ہم ہی تو کبھی موت سے تھے کھیلنے والے
تھے مقتل و زنداں کے چراغوں کے اجالے
اور آج یہ جینے کے ہیں انداز نرالے
جادہ ہے نہ منزل ہے نہ اب پاؤں میں چھالے
ہم اپنے ضمیروں کی تجارت میں پڑے ہیں
کاسہ لئے بازار سیاست میں کھڑے ہیں
عزت کے صداقت کے شہادت کے قصیدے
اسلاف کے کردار کی عظمت کے قصیدے
بھولے ہوئے بیٹھے ہیں شجاعت کے قصیدے
ہم پڑھنے لگے اہل رعونت کے قصیدے
اب اپنا ضمیر اپنا یقیں بیچ رہے ہیں
ہم لقمۂ تر کے لئے دیں بیچ رہے ہیں
مقصود جو خوشنودی قاتل ہے ہماری
ہم خوش ہیں کہ کشتی سر ساحل ہے ہماری
عقبیٰ کی تمنا کہاں حاصل ہے ہماری
کرسی کی طلب آخری منزل ہے ہماری
کس شان سے جیتے تھے یہاں خار ہوئے کیوں
سوچا ہے کبھی حاشیہ بردار ہوئے کیوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.