کسان
سفید دودھ سی اجلی کپاس اس کی ہے
یہ کھیت اس کے ہیں شان لباس اس کی ہے
سکوں کی نیند ہے مخمل کی گھاس اس کی ہے
کہ پھول پھول میں خوشبو ہے باس اس کی ہے
مرے وطن مرے کھیتوں کی شان کیا کہنے
ہر ایک شہر کو شیر و شکر بھی دیتا ہے
وہی کسان جو خون جگر بھی دیتا ہے
امیر شہر کو وہ سیم و زر بھی دیتا ہے
بہ نام خوشۂ گندم گہر بھی دیتا ہے
مرے وطن مرے کھیتوں کی شان کیا کہنے
بغیر اس کے نہیں آن بان دلی کی
اسی کے نام سے باقی ہے شان دلی کی
یہ مطمئن ہی نہ ہوگا تو کیسی شادابی
ہر ایک سمت اندھیرے تمام بے خوابی
مرے وطن مرے کھیتوں کی شان کیا کہنے
اسی کے دم سے ابھرتی ہے ہند کی تصویر
اسی کے نام سنورتی ہے ہند کی تقدیر
تمام کھیت ہیں شاداب ہند کی تفسیر
بغیر اس کے نہیں خواب ہند کی تعبیر
مرے وطن مرے کھیتوں کی شان کیا کہنے
بہار اس میں نہیں ہے تو پھر چمن کیا ہے
یہ گلستاں ہی نہیں ہے تو بانکپن کیا ہے
جو ترجماں نہ ہو اس کی تو انجمن کیا ہے
بیاں اسی کا نہیں ہے تو پھر سخن کیا ہے
مرے وطن مرے کھیتوں کی شان کیا کہنے
حکومتیں بھی اسی کی ہیں راج بھی اس کا
عدالتیں بھی ہیں یہ تخت و تاج بھی اس کا
ہر ایک دور تھا اس کا یہ آج بھی اس کا
بدلتے رنگوں سے نکھرا سماج بھی اس کا
مرے وطن مرے کھیتوں کی شان کیا کہنے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.