رات کے پر کیف سناٹے میں بنسی کی صدا
چاندنی کے سیم گوں شانے پہ لہراتی ہوئی
گونجتی بڑھتی لرزتی کوہساروں کے قریب
پھیلتی میداں میں پگڈنڈی پہ بل کھاتی ہوئی
آ رہی ہے اس طرح جیسے کسی کی یاد آئے
نیند میں ڈوبی ہوئی پلکوں کو اکساتی ہوئی
آسمانوں میں زمیں کا گیت لہرانے لگا
چھا گیا ہے چاند کے چہرے پہ خفت کا غبار
بزم انجم کی ہر ایک تنویر دھندلی ہو گئی
رکھ دیا ناہید نے جھنجھلا کے ہاتھوں سے ستار
ذرہ ذرہ جھوم کر لینے لگا انگڑائیاں
کہکشاں تکنے لگی حیرت سے سوئے جوئبار
یوں فضاؤں میں رواں ہے یہ صدائے دلنشیں
ذہن شاعر میں ہو جیسے اک اچھوتا سا خیال
یا سحر کے سیم گوں رخسار پر پہلی کرن
سرخ ہونٹوں سے بچھائے جس طرح بوسوں کے جال
گاہ تھمتی گاہ سناٹے کا سینہ چیرتی
یوں فضا میں اٹھ کے ہو جاتی ہے مدھم ہائے ہائے
شام کی دھندلاہوہٹوں میں دور کوئی کارواں
کوہساروں سے اتر کر جیسے میدانوں میں آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.