Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کہرے کا کھیت

کیفی اعظمی

کہرے کا کھیت

کیفی اعظمی

MORE BYکیفی اعظمی

    وہ سرد رات جبکہ سفر کر رہا تھا میں

    رنگینیوں سے ظرف نظر بھر رہا تھا میں

    تیزی سے جنگلوں میں اڑی جا رہی تھی ریل

    خوابیدہ کائنات کو چونکا رہی تھی ریل

    مڑتی اچھلتی کانپتی چنگھاڑتی ہوئی

    کہرے کی وہ دبیز ردا پھاڑتی ہوئی

    پہیوں کی گردشوں میں مچلتی تھی راگنی

    آہن سے آگ بن کے نکلتی تھی راگنی

    پہنچی جدھر زمیں کا کلیجہ ہلا دیا

    دامن میں تیرگی کے گریباں بنا دیا

    جھونکے ہوا کے برف بچھاتے تھے راہ میں

    جلوے سما رہے تھے لرز کر نگاہ میں

    دھوکے سے چھو گئیں جو کہیں سرد انگلیاں

    بچھو سا ڈنک مارنے لگتی تھیں کھڑکیاں

    پچھلے پہر کا نرم دھندلکا تھا پر فشاں

    مایوسیوں میں جیسے امیدوں کا کارواں

    بے نور ہو کے ڈوبنے والا تھا ماہتاب

    کہرے میں کھپ گئی تھی ستاروں کی آب و تاب

    قبضہ سے تیرگی کے سحر چھوٹنے کو تھی

    مشرق کے حاشیے میں کرن پھوٹنے کو تھی

    کہرے میں تھا ڈھکے ہوئے باغوں کا یہ سماں

    جس طرح زیر آب جھلکتی ہوں بستیاں

    بھیگی ہوئی زمیں تھی نمی سی فضا میں تھی

    اک کشت برف تھی کہ معلق ہوا میں تھی

    جادو کے فرش سحر کے سب سقف و بام تھے

    دوش ہوا پہ پریوں کے سیمیں خیام تھے

    تھی ٹھنڈے ٹھنڈے نور میں کھوئی ہوئی نگاہ

    ڈھل کر فضا میں آئی تھی حوروں کی خواب گاہ

    بن بن کے پھین سوئے فلک دیکھتا ہوا

    دریا چلا تھا چھوڑ کے دامن زمین کا

    اس شبنمی دھندلکے میں بگلے تھے یوں رواں

    موجوں پہ مست ہو کے چلیں جیسے مچھلیاں

    ڈالا کبھی فضاؤں میں خط کھو گئے کبھی

    جھلکے کبھی افق میں نہاں ہو گئے کبھی

    انجن سے اڑ کے کانپتا پھرتا تھا یوں دھواں

    لیتا تھا لہر کھیت میں کہرے کے آسماں

    اس وقت کیا تھا روح پہ صدمہ نہ پوچھئے

    یاد آ رہا تھا کس سے بچھڑنا نہ پوچھئے

    دل میں کچھ ایسے گھاؤ تھے تیر ملال کے

    رو رو دیا تھا کھڑکی سے گردن نکال کے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے