کوئی کپڑے کیسے بدل گیا
میں اپنے لباس پھینکتی جا رہی ہوں
شاید کوئی ٹھٹھر رہا ہو
کل تمہیں بانٹ دے گی
اور مٹی پہ کوئی سیدھی راہ نہیں ہے
چراغ نے چغلی سیکھی
اور قطار میں فاصلہ رکھا
وہ وہیں رہ گیا جہاں سے مجھے چلنا تھا
داغ کس کی چتا پہ جلیں گے
ٹوٹے کھلونے ہاتھوں سے آزاد ہیں
کھیل میدانوں میں رہنے لگے
بین رسیوں پہ بجائی جانے لگی
پرندوں کے چہچہانے میں بل پڑ گئے ہیں
میں کفن ہارنے چلی تھی
اور مٹی دریافت کر بیٹھی
دیواروں میں اینٹیں مرنے لگیں
میں اتری ہوں
تمہارے قدم کیوں گھٹ رہے ہیں
دار نے رہائی پائی کوئی نئی سزا تقسیم کرو
لہو میں آواز رہ گئی
کوئی کیسے کپڑے بدل گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.