کلیات غم جہاں
ہم سمجھتے تھے شاعری کرنا
کوئی آسان سا عمل ہوگا
رات دن حسن چاند سورج تم
ہر کوئی شامل غزل ہوگا
زندگی موت عشق دل دنیا
اور بھی ہوں گے نظم کے عنواں
لفظ جذبے خیال کے پیکر
کچھ غم یار کچھ غم دوراں
اور پھر ایک روز یوں ہوگا
ہم بھی دو چار جام گٹکیں گے
بے سبب بے خودی کی حالت میں
رات بھر شہر بھر میں بھٹکیں گے
پھر تو ہر روز ساغر و مینا
ہم نظر آئیں گے شرابی سے
شاعروں کو شراب جرم نہیں
کیوں کہ غالب شراب پیتے تھے
لیکن اک روز کیا سنا میں نے
شہر بھوپال زور سے چیخا
چاروں جانب گلی سڑی لاشیں
ہر طرف رقص تھا تباہی کا
زہر سا گھل گیا ہواؤں میں
سانس آتی تھی موت کی صورت
لوگ روتے تھے اور بھاگتے تھے
موت کے خوف سے کسی صورت
لوگ نالوں میں کود جاتے تھے
جسم جائے پناہ ڈھونڈتے تھے
ایک دریائے خون جاری تھا
جسم کے زخم راہ ڈھونڈتے تھے
سوچتا ہوں یتیم بچوں کو
کس نے شفقت کی چھاؤں دی ہوگی
درد و غم سے بلکتی ماؤں کو
کس نے تلقین صبر کی ہوگی
یوں نہیں ہے کلام غالب میں
کچھ نہیں تھا شعور فن کے لیے
یوں نہیں ہے کہ میرؔ کی غزلیں
واہمہ تھیں مرے سخن کے لیے
مومنؔ و داغؔ آتشؔ و ناسخؔ
یا انیسؔ و دبیرؔ ذوقؔ و نسیمؔ
سب دواوین ہیں مطالعے میں
سارے شاعر کہ سب جدید و قدیم
جب تلک کچھ مشاہدات نہ ہوں
شاعری میں مزہ نہیں آتا
درد کی راہ سے چلے آؤ
تو خیالوں میں کیا نہیں آتا
یہ مرا دور یہ مری دنیا
ہر کوئی اپنے آپ میں گم ہے
عشق رنگینیوں میں ڈوبا ہے
اور لب حسن پر تبسم ہے
اب خلاصہ تمام چیزوں کا
اخذ کیجے کتاب جاں پڑھ کر
کچھ ہمیں بھی شعور آیا ہے
کلیات غم جہاں پڑھ کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.