زمانہ از سر نو یہ گواہی دے رہا ہے
ازل سے تا ابد سب کچھ فنا ہے
مگر اک خواہش بے سود ہر انسان کے اندر پنپتی ہے
یہ ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے
جو ہر پل یہ سمجھتا ہے
کہ مٹی کوزہ گر کے نور میں گوندھی گئی ہے
یہ فطرت بے محابا ہے
جو کوزہ گر کے ہاتھوں سے
ہر اک انسان میں شامل ہوئی ہے
ہر اک انسان بس اک واہمے میں ہے
کہ وہ بھی لا فنا ہے
زمیں پر پھولتے انسان کو اپنی پڑی ہے
یہاں ہر اک نفس شوریدہ خاطر پھر رہا ہے
یہاں ہر ایک اپنی خواہشوں کی قید میں الجھا ہوا
بس یہ سمجھتا ہے
کہ ہر تار نفس پر آیت رمز بقا ہے
زمیں کی کوکھ میں سوئے ہوؤں سے پوچھتا کوئی نہیں
کہ اس طرف دنیا میں کیا محشر بپا ہے
دریدہ پیرہن پھرتا ہوا انسان
اپنی آخری خواہش پہ چوکیدار نافذ کر رہا ہے
اب اس کو کون سمجھائے
خلا کے اس طرف کچھ بھی نہیں پنہاں
یہ دنیا خواہشوں کی قید میں
الجھے ہوئے انساں کا پنجرہ ہے
جو اپنی خواہشوں کی تال پر
کچھ یوں تھرکتا ہے سمجھتا ہے کہ
سب کچھ مل گیا شاید
مگر یہ سب خلل ہے واہمہ ہے
یہ دماغی ایٹموں کی کوکھ میں پنہاں خلا ہے
جو کبھی بھرتا نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.